میدان سیاست میں تیزی

میدان سیاست میں تیزی

یلغار فیصل شامی
انتخابات کا دور دورہ ہے میدان سیاست میں تیزی آچکی سیاسی گٹھ جوڑ میں بھی تیزی آچکی پاکستان مسلم لیگ کے چیف آتگنائزر اور سابق گورنر پنجاب جناب بلاول کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور جناب چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ کپتان کی جماعت کے چاہنے والے بلاول بھٹو کو کامیاب کر وا کے ن لیگ کو شکست سے دوچار کر دیں اور جناب چوہدری سرور بھی جہاندیدہ سیاست دان ہیں اوع عین ایسے وقت میں جناب سرور نے ایک دفعہ پھر اپنی پارٹی تبدیل کر لی اور ایسے وقت میں جناب چوہدری سرور کا مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرنا بھی میدان سیاست میں دھماکہ ہی ہے اور جناب بلاول کی کمپین بھی حیران کن بات نہیں کیونکہ جناب چوہدری سرور کے پیپلز پارٹی قائدین سے پرانے خوشگوار تعلقات ہیں اور جہاں تک بات رہی جناب بلاول کی تو نوجوان ہیں عوامی خدمت کے جزبے سے سرشار ہیں اور سب سے بڑھ کے یہ کہ جناب بلاول ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے نوا سے ہیں اور محترمہ بے نظیر شہید کے صاحبزادے ہیں اور یقینا کہا جائے کہ انھیں سیاست ورثے میں ملی ہے تو غلط نا ہو گا اور فی الوقت جناب بلاول لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور اپنے حلقے میں کمپین بھی کر رہے ہیں اور بلاول لاہور میں الیکشن لڑ رہے ہیں اور جناب بلاول حلقہ این اے 127 سے انتخاب لڑ رہے ہیں ہم بھی اسی حلقے سے صوبائی اسمبلی پی پی 162 سے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں اور ہمارا انتخابی نشان لیپ ٹاپ ہے اور یقینا بلاول جوش و خروش سے انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ حلقہ این اے 127 میں جیالوں کے لئے خوشی کی خبر ہے کہ بھٹو مرحوم کے نواسے اور شہید بے نظیر کے. صاحبزادے انکے حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جباب بلاول کے لئے مقابلہ آسان نا ہو گا کیونکہ یہ حلقہ شیر کا پکا حلقہ سمجھا جاتا ہے گو کہ پہلے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بھی اسی حلقے سے ہی الیکشن لڑا اسی حلقے سے جناعت اسلامی کے احسان اللہ وقاص بھی رکن اسمبلی رہے پھر نصیر بھٹہ ۔ وحید عالم خان اور شائستہ پرویز ملک بھی ازی حلقے سے جیتے اسک لئے
یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ جناب بلاول کا مقابلہ سخت کانٹے دار ہو گا لیکن دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ جناب بلاول اگر جیت بھی جائیں تو کیا وہ لاہور کا یہ حلقہ اپنے پاس رکھینگے یا سیٹ چھوڑ کے ضمنی الیکشن کروائینگے کچھ نہیں کہا جا سکتا
اب انتخابات تو ہو رہے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں حلقوں سے امیدوار نہیں کھڑا کرتی یعنی کہ باہر سے امیدوار دور دراز علاقوں سے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور انھیں پارٹی ٹکٹ دے کے الیکشن لڑوایا جاتا ہے اور بہت سے امپورٹڈ امیدواران الیکشن جیتنے کے بعد پوعے پانچ سال نظر ہی نہیں آتے اور یہ المیہ بھی ہے اور گویا بدقسمتی بھی اور اگر دیکھا جائے تو حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان کپتان کی جماعت کا ہی ہوا جسے اپنے انتخابی نشان سے محروم ہونا پڑا اور یقینا اگر دیکھا جائے تو انتخابات کا دور دورہ ہے اور اس انتخابی شور شرابے میں ڈھول کی تھاپ پہ کون کون خوش ہو کے بھنگڑے ڈالے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تو بہر حال اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے کچھ دن ہی بچے ہیں انتخابات منعقد ہونے میں تو اب نتائج کے لئے انتظار ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس وقت کا انتظار کریں جب الیکشن ہوں اور نتائج برآمد ہوں لیکن فی الحال اپنے پیارے دوست کو اجازت دیں ملتے ہیں جلد آپ سے دوستوں اک چھوٹی سی بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا

اپنا تبصرہ بھیجیں