ناگ راجا اور ناگن رانی

خوبصورت سی جگہ پر ندی کے کنارے ناگ راجا اور ناگن رانی اٹھکھیلیاں کر رہے ہیں اچانک ناگن رانی نے ناگ راجا کی طرف دیکھا ناگن رانی :راجا اجازت ہو تو کچھ عرض کروں ۔ ناگ راجا:اجازت ہے۔ ناگن رانی :راجا ااج کتنا پیارا دن ہے ۔ ناگ راجا: اآج سالگرہ کا دن ہے ۔ ناگن رانی : جی راجا جی ۔ عرض ہے کہ آپ ہمیشہ انسانوں کی دنیا میں جانے سے منع کر دیتے ہیں ۔ ناگ راجا : ہم انسانوں کی دنیا میں نہیں جاسکتے ، کیونکہ ناگن رانی:ہم سانپوں کی دنیا کے راجا رانی ہیں ۔ کچھ بی کرسکتے ہیں ۔ ناگ راجا : وہ تو ٹھیک ہے لیکن ناگن رانی: لیکن کیا ؟ نیگ راجا : ہماری کچھ حدود ہیں اور ان حدود سے تجاوز کرنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ ناگن رانی: مشکل ہے نا ممکن تو نہیں ناگ راجا ؛ یہاں ٹھیک ہے لیکن انسانوں کی دنیا !!ناگن رانی ؛ کیا ہوا ناگ راجا : ہماری جان کو خطرہ ؟؟ ناگن رانی : ہماری جان کو خطرہ کیس ہو سکتا ہے ۔ راجا جی ہمارے ساتھ تو مہا راجا ناف کی دعائین ہمارے ساتھ ہیں ناگ راجا: وہ سب تھیک ہے رانی صاحبہ ۔ نفن رانی؛ چند گھڑیوں کی تو بات ہے ناگ راجا : سوچ لو (یہ چند گھڑیاں کچھ چند دن سےاور چند دن سے چند مہینے اور مہینوں سے سال اور سال کہیں چند صدیاں نہ بن جائیں ) ناگن رانی : مطلب ناگن راجا: ایسا نہ ہو کہ ہمیں کوئی قید نہ کر لے یا یایا پھر آ پ کا واپس آنے کا دل نہ کرے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا کسی پر دل ہی آجا ئے اور ہم ناگن رانی: توبہ توبہ اللہ نہ کرے کیسی بد شگونی کی باتیں کر رہے ہیں ۔ ناگ راجا : حقیقت ہے لہ ڈر لگتا ہے ہمیں انسانوں کی دنیا میں ناگن رانی : ڈر نے کی کیا بات ہے ۔ ہم ہیں ناں آپ کے ساتھ کہتے ہیں نا ایک اور ایک گیارہ ناگ راجا: بہت ضدی آپ ناگ رانی : جائیں جائیں اگر ہم ضدنہ کرتے تو تو ناگ تاجا: تو تو کیا ؟ ناگن رانی : تو کبھی آپ کو ہمارا ساتھ نہ ملتا اگر ہم بڑے ناگ جی کے آگے آپ کے لئے ضد نہ کرتے ، کھانا پینا نہ چھوڑتے ااور آپ کے تو جیسے منہ میں زبان ہی نہ تھی مہارا جا ناگ نے ایک دبکا مارا تو آ پ چوں نہ کر سکے میں نہ اکڑتی تو تو ؟؟ ناگ تاجا : پیار سے ۔ شرم کریں رانی جی کیسی باتیں کررہی ہیں ۔ کوئی سن لے گا تو کیا کہے گا ناگن رانی : اب اس عمر میں کا ہے کی شرم ۔ ناگ رانی : آپ سے کون جیت سکتا۔ جیسے آ پ کی مرضی ناگن رانی: یا ہو ناگ راجا :پہلے انسان تو بن جائیں ہم اس روپ میں تو نہیں جاسکتے جیسا دیس ویسا بھیس ۔ ناگن رانی : راجا جی انسانوں کے روپ میں کہیں ہم انسانوں جیسے تو نہیں ہو جائیں گے نا ناگ راجا : مطلب ناگن رانی : مطلب یہ کہ چوری ، ڈاکہ ، ہویں ، دھوکہ ، غیبت، قتل، حسد و دیگر گناہ جو انسانوں کا مشغلہ ہیں۔ کہیںہم بھی تو ایسی عادتیںپیدا نہیں ہو جائیں گی ۔ شر ارت بھری مسکراہٹکے ساتھ ناگ راجا کی طرف دیکھا ناگ راجا: باتیں بنانا تو کوئی آپ سے سیکھے !! ناگن رانی: مورے راجا جی ( بڑی پیار بھری ادا سے رانی جی نے پکارا ) ناگ راجا: مکھن لگ رہا ہے ناگن رانی: آپ کتنے اچھے ہیں نا جی ناگ راجا : ارے رانی جی اچھے تو صرف آپ کے لئے ہیں ناگن رانی: ہا ہا ہا اسی لئے تو ہمیں بھی ناز ہے آپ پر اور ناگ راجا: اور کیا ناگن رانی : اور مان بھی کے آپ ہمارہا کس قدر خیال رکھتے ہیں ناگ راجا ؛ کچھ پوچھنا ہے تو صاف صاف پو چھئے مسکا لگانا چھوڑ ئیے ۔ ناگن رانی : وہ سفید ناگن بھی انسانوں کی فنیا میں سیر کر کے اگئی تھی ، وہ تو بڑی تعریفیں کر رہی تھی لیکن ناگ راجا : لیکن کیا ناگن رانی: لیکن یہ کہ انسان ہم سانپوں سے ڈرتے بہت ہیں ناگ راجا: وہ اس لئے لہ ہم جانعر ہیں اور زہریلے بھی،۔ ناگن رانی: ہاں جی لیکن سنا ہے کہ انسان چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہیں ظلم کرتے ہیں ، ایک دوسرے کا حق بھی مارتے ہیں ناگ راجا : ہاں لیکن پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔ہر جگہ اچھے اور برے افراد ہوتے ہیں اور تو اور ہمارے جانور بھی اپنی حدود کی خلاف ورزی کر لیتے ہیں ، بڑا جانور چھوٹے جانور کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے استعمال کرتا ہے ، لیکن انسان اپنے دماغ سے کام لے کر با آسا نی دوسروں کے کندھے پر بندوق چلادیتے ہیں ناگن رانی: نطلب ناگ راجا ؛ اتے موری رانی جی ساری باتیں آپ نے اسی جگہ پوچھ لیں تو پھر انسانوں کہ دنیا میں جا کر ناگن رانی : بات کاٹتے ہوئے جی راجا جی ٹھیک فرمایا لیکن ہم جائےںگے کہاں ناگ راجا: یہ تو ہمیں بھی نہیں پتہ سوالیہ مسکراہٹ کے ساتھ ناگن رانی کی طرف دیکھا ناگن رانی: پھر بسم اللہ کریں ۔ ڈنگ ڈانگ بین کا میوزک ۔ دونوں نے آنکھیں بند کیں چند لمحوں بعد دونوں انسانی روپ میں تھے ۔ خوبصورت لڑکی اور لڑکے کے روپ میں ۔ کسی نئی جگہ پر انجانے دیس میں سڑک کنارے دونوں نے آنکھیں کھولیں ۔ سڑک پر جہاں کہیں آبادی کا نام نہیں تھا کبھی کبھار تیزی سے گاڑی انکے پاس سے گذر جاتی وہ منہ دیکھتے رہتے رانی جی نے خاموشی کو توڑا بولنے لگی رانی جی ! ارے راجا جی کہاں آگئے سوالیہ انداز میں پوچھا راجا! یہ تو ہمیں بھی نہیں پتہ وہ باتیں کر رہے تھے اچانک نو¿بس آ کر رکتی ہے لڑکا نکلتا ہے پوچھتا ہے ۔ کنڈیکڑ: چاچا جی کتھے جانا ہے کچھ سوچتے ہوئے بولے راجا جی! آپ کہاں جارہے ہیں ؛کنڈیکڑ: شہر جا رہے ہیں جلدی کریں راجا رانی بس میں بیٹھ گئے بس چل پڑی خاموشی سے بیٹھے رہے دونوں نے آنکھیں بند کرلیں کب بس رکی انہیں پتہ نا چلا کنڈیکڑ : اٹھو چاچا جی دونوں اٹھ گئے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اٹھ کھڑے ہوئے دروازے پر پہنچے ۔ اترنے لگے پیچھے سے آواز آئی کنڈیکڑ: چاچاجی کرایہ تو دے دو۔راجاجی: کرایہ(سوچ میں پڑگئے ) کرایہ کیا ہوتا ہے بھائی صاحب ؟ کنڈیکڑ : حیرت سے چاچاجی کہیں نشہ تو نہیں کر رکھا کرایہ دو کرایہ ؟؟ راجاجی : بھائی صاحب معاف کردو کرایہ تو تو نہیں کنڈیکڑ : چاچا عمر کا لحاظ کر رہا ہوں جا کیا یاد کرے گا چاچی نا ہوتی تو راجا جی: تا کیا ؟؟ کنڈیکڑ : کچھ نہیں چھوڑیں جی لیکن اگلی دفعہ نہیں معاف کروں گا راجا جی : کیا؟ کنڈیکڑ : کرایہ ! رانی : جےتے رہو بیٹا جیتے رہو ( خوش ہو کر بولی) کنڈیکڑ : چاچاجی یہ بتائےں آئیں کہاں سے ہیں راجا جی : (سوچتے ہوئے ) کوہ قاف سے کنڈیکڑ : زور سے اچھلا کیا ؟ ہم نے چھوٹے ہوتے سنا تھا کوہ قاف میں جن رہتے ہیں تو کیا آپ بھی جن ہیں ۔ راجا جی : ہنستے ہوئے ۔ نہیں جی ہم سانپ مطلب ناگ راجا ہیں اور انسانی شکل میں دنیا کی سےر کرنے آئےں کنڈیکڑ © : سانپ کا لفظ سنتے ہی بے ہوش ہو گیا دو نوں ہوش دلانے لگے ہوش میں آیا پوچھنے لگا کنڈیکڑ : جو کچھ آ پ نے کہا سچ ہے راجاجی : سچ ہے لیکن ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے کنڈ یکڑ : میں ویسے بھی جنوں پھوٹوں سے نہیں ڈرتا میرے پاس تعویز جو ہے ۔ ( اس نے کوئی چیز ہوامیں لہراتے ہوئے شوخی سے کیا) ناگ راجا : چھوٹو میاں تو بہت بہادر ہیں ناگن رانی : ہاں ہاں بہت بہادر ہیں کہیں پھر سے بے ہوش نا ہو۔ کنڈیکڑ: چھوڈیں جی ارے ہاں ااپ نے کچھ کھایا پیا بھی سوچتے ہوئے جیسے کچھ یاد آیا) تھوڑی دیر ٹھہریں میں ذرا استاد کو گیرا کروا کر آیا ! َ راجا جی : مطلب کنڈیکڑ :ٓ نہیں سمجھیں گے َ۔ میں چھٹں لے کر آیا گھر چلیں گے آپ میرے گھر رہیں مجھے خوشے ہوگی انکار نا کریں دوستی کرینگے نا میرے سے ؟؟ ناگ راجا اور رانی ہنس پڑے ! کنڈیکڑ : میںیوںگیا یوں آیا ! راجا رانی انتظار کرنے لگے چند لمحوں بعد چھوٹو میاں (کنڈیکڑ )راجا رانی کے پاس پہنچا اور آواز لگائی ۔ کنڈیکڑ : ہیلو چاچاجی چلیں راجا رانی نے اسے دیکھا اور اسکے ساتھ چل پڑے کچھ دیر بعد وہ کنڈیکڑ کے گھر پہنچ چکے تھے گھر کیا تھا اک کمرہ تھا اسکے ساتھ صحن کنڈیکڑ : دروازہ کھولتے ہوئے ۔ ماں جی اور میں ہم دو ہی رہتے ہیں گھر میں چھوٹا سا گھر تھا ۔ا صاف ستھرا راجا جی : تمہاری ماں جی کنڈیکڑ: وہ خالہ جی کے ہاں گئی ہیں شہر سے باہر ۵۱ ، ۰۲ دنوں کیلئے !! کنڈیکڑ : بات جاری رکھتے ہوئے اللہ کا شکر ہے سب کچھ ہے غریب ضرور ہیں لیکن دل سے غریب نہیں البتہ راجا: رک کیوں گئے!! کنڈیکڑ : چاچاجی مجھے تو نہیں لیکن اماں کو میری چاند سی دلہن لانے کی فکر پڑی ہے چاچاجی خودہی سوچیں میری شادی کی عمرہے لیا ؟؟راجارانی دونوںہنس پڑے !! کنڈیکڑ:مذاق اڑا رہے ہیں!!رانی : چھوٹومیاںویسے آپ کی اماں ٹھیک کہتی ہیں کنڈیکڑ:کیا خاک ٹھیک کہتی ہیں رانی : دیکھو چھوٹو میاں جب بچے جوان ہو رہے ہوں تو ماںباپ کو انکی فکر یعنی کے زادی کنڈیکڑ : آپکا مطلب ہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی شادی کنڈیکڑ : آپکا مطلب ہے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی شادی کریں ۔ رانی جی : رسم بھی ہے اور سنت رسولﷺبھی ہے ۔ یقین کرو اصل زندگی بھی شادی کے بعد ہے ۔ جب انسان میں ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے یقین جانو کے صرف بستر پر وقت گزارنا ہی شادی کا مطلب نہیں ۔ بلکہ یہ ایک ایسا بندھن ہے جس میں میاں بیوی ساتھ جینے کے سپنے دیکھتے ہیں دکھ سکھ ، ہنسی خوشی بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اکٹھار ہنے کے وعدے کرتے ہیں اور چھو ٹو : بات کاٹتے ہوئے میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ ر ہا جانے کیا کہہ رہی ہیں راجا جی : چلیں چھوڑیں یہ بتائےں وہ ڈبہ کیسا رکھا یے کنڈیکڑ : ہنسنا شروع ہو گیا راجاجی : کوئی لطیفہ سنایاہے ہم !! کنڈٰیکڑ :چاچاجی وہ ڈبہ نہیںٹی وی ہے رانی جی : ٹی وی کیسی بلا ہے ؟ کنڈیکڑ: رانی جی ٹی وی سجھیں جادوئی ڈبہ ہے راجاجی :مطلب کنڈیکڑ : جو ہم غریبوں کی تنہائی کا ساتھی ہے ، جس پر گھر بیٹھے بہت سے ملکوں کے مختلف زبانوں میں تفریحی معلوماتی پروگراموں کے اعلاوہ ڈرامے وغیرہ بھی دیکھے جاسکتے ہیں اور خبریں بھی سنی جاسکتی ہیں رانی جی : بڑی زبردست چیز ہے کنڈیکڑ: (باتوںباتوںمیںبھول ہی گیا تھا ) آپ منہ ہاتھ دھو لیں میں کھانا گرم کرتا ہوں ۔ پھر آپ آرام کر لیں تھک گئے ہوں گے ۔ راجا رانی نے سر ہلایا،ا جیسے کہہ رہے ہوں ہمارا بھوک پیاس سے کیا لینا دینا تھوڑی دیر بعد کنڈیکڑ اندر داخل ہوتا دکھائی دیا (ہاتھ میں ٹر ے، ۲ گلاس دودھ کے بھرے اور ساتھ کھانے کی چیزیں ) ہنستے ہوئے بولا کنڈیکڑ : مجھے پتہ ہے آپ دودھ شوق سے پیتے ہیں۔ میں نے فلم دیکھی تھی رانی جی : شکریہ ۔ تم واقعی بہت اچھے ہو کنڈیکڑ :مجھے یہ تو آ پ کا حسن نظر ہے ورنہ میری قسمت میں تو گالیاں ہی گالیاں ، کبھی ماں تو کبھی استاد کی ۔ ہائے ہائے اچھا جی آپ آرام کریں صبح ملا قات ہوگی ۔ شب بخیر کمرے سے باہر نکلتا ہے۔ کنڈیکڑ : چاچاجی چاچاجی اٹھو صبح ہو گئی راجا جی نے انگڑائی لی رانی جی کو آواز دینے لگے !! راجا : رانی جی اٹھئے سورج نکل آیا کنڈیکڑ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں دودھ رکھا تھا ۔ سائیڈ پر رکھی کنڈیکڑ: لیں جی ناشتہ کر لیں رانی جی : ناشتہ وہ کیا ہوتا ہے ؟؟ کنڈیکڑ: سر پکڑ کر اوہ خدایا میرا مطلب ہے کہ دودھ پی لیں ! راجا رانی نے سر ہلایا کنڈیکڑ : لیکن ٹھہریں !! راجا جی : لیا ہوا ؟؟ لنڈیکڑ ؛ تولیہ لے کر آتا ہوں آپ منہ ہاتھ دھولہں باہر نکل گیا چند لمحوں بعد اندر داخل ہوا۔ تولیہ راجا جی کی طرف بڑھاتے ہوئے ئی لیں جی راجا جی : اس کا کیا کرنا ہے کنڈیکر: منہ دھونے کے بعد اچھی طرح سے صاف کرنے کیلئے راجا جی : اچھا اچھا کنڈیکڑ : چاچا جی آپ آرام کریں ۔ میں کام پر جا رہا ہو ں کو ششں کروں گا جلدی آجاﺅں راجا جی : ارے چھوٹو میاں اپنا نام تو بتائیں ؟؟ چھو ٹو میاں : میرا نام شیر علی ہے راجا جی : کیا پیارا نام ہے رانی جی : تمہیں پتہ ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے چھو ٹو میاں : ہم بھی تو شیر ہی ہیں ناں ۔ مطلب بادشاہ اپنی دھن کے بادشاہ ، اپنے دل کے بادشاہ راجا جی : واہ شیر میاں تو آپ جائیں دیر ہو رہی ہے، استاد جی پھر برا بھلا کہیںگے شیر علی : اچھا آپ مجھے بھیج کے خوش ہیں تو پھر ہم چلے جاتے ہیں رانی جی : خداحا فظ شیر علی : میں باہر سے تالا لگا جاﺅں ۔ آ پ کو پر یشانی تو نہیں ہوگی ؟؟راجاجی : شیرو میاں کیسی پریشانی رانی: بے فکر رہیں ۔ شیر علی: اوکے اللہ حافظ باہر نکل جاتا ہے ۔ راجا رانی کمرے میں باتیں کر رہے ہیں ۔ رانی نے روماٹنگ موڈ میں راجا کی طرف دیکھا رانی : مورے راجا ! راجا : فرمائیں ! رانی: جانے کیوں ڈرتے تھے ۔ ابھی تک تو سب اچھا ہے راجا جی : اللہ کرے سب اچھا ہی رہے ؟ رانی : راجا جی باہر نکلیں؛؛؛؛؛ راجا جی : جلدی بھی کیا ہے ۔ اسے تو آنے دو رانی : چھوٹو میاں اچانک !! رانی جی اٹھیں ، ایک طرف رکھے کیسٹ پلئیر کا بٹن دبایا ۔ گانا شروع ہوگیا نور جہاں : سانوں تیرے نال پیار ہو گیا ، وے چناں سچی مچی گانا سنتے سنتے وہ دونوں مدھر خیالوں میں کھو گئے سپنوں کی دنیا میں جہاں وہ ناچ بھی رہے تھے اور شوخ ادائیں دروازہ کھلنے کی آواز انھیں محسوس ہوئی شیر علی :چاچاجی چاچاجی شیر علی : کن خیالوں میں کھوئے ہیں جی ؟ راجاجی: سناﺅ بڑی جلدی آگئے ؟ شیرو: آپ کے بغیر دل نہیں لگ رہا تھا جلدی آگیا±!! راجا جی : چھٹی لے کر ؟شیرو: چھٹی نہیں چھٹیاں لے کر !! رانی جی :مطلب کام نہیں کرو گے تو ماں کو کہاں سے دو گے َ؟؟ شیرو : اللہ مالک ہے جی آپ لوگوں نے کون سا روز روز آنا ہے ۔ یہ تو قسمت آپ کو ہمارے پاس لے آئی شکر ادا کریں اپنے رب کا راجا جی : شکر ہے تیرا مالک ! شیرو : میں نے استاد کو کو بتایا ہے کہ میرے مہمان آئے ہیں اس لئے کام پر نہیں آسکتا راجا جی : ہمارے بارے بتایا شیرو: صرف یہ بتایا کہ دور سے جاننے والے ہیں رانی : بہت ہوشیار ہو ! شیرو : استاد نے آپ سے ملنے کو بولا تھا راجا جی : مل لیں گے شیرو: لیکن ؟ راجا جی : لیکن کیا ؟؟ شیرو: لیکن یہ کہ وہ شہر سے باہر گیا ہے اور دو چار دن کے بعد آ ئے گا !! راجا جی : چلو جب تمہارا استاد آئے گا تب مل لینگے شیرو: آپ گھر میں بیٹھے بیٹھے بور تو نہیں ہو ئے ؟ صبح سے گھر میں ہیں کہیں باہر گھومنے چلتے ہیں کیوں چاچی جی ۔ چلیں گی نا رانی: چھوٹو میاں جہاں لے کر جائیں گے چلے جائینگے چلیں پھر تینوں کھڑے ہوئے باہر نکلنے لگے شیرو نے دروازے کو تالالگایا شیرو: کہاں چلیں راجا جی : جہاں دل کرے شیرو نے کچھ سوچا پھر ہاتھ سے اشارہ کیا چلیں اسطرف سے چلتے ہیں۔ پیدل چلتے چلتے بازار پہنچ گئے ایک دوکان کے سامنے پہنچ کر شیرو رک گیا وہ اندر داخل ہوگئے شیرو نے کھانے پینے کی چیزیں لیں دکاندار کو پیسے دئیے باہر نکل آئے چلتے چلتے وہ پارک میں پہنچ گئے ایک جگہ بیٹھ گئے کھانا کھانے لگے کھا پی کر فارغ ہوئے شیرو:(خاموشی کو توڑا ) راجہ جی کہاں کھو گئے !! راجا جی : ہم سوچ رہے تھے کہ تم کتنے اچھے ہو َ؟؟شیرو: چاچاجی مجھے شرمندہ نا کریں !! راجاجی:یہ بتاﺅسب انسان ایک جیسے؟؟ شیرو:پانچوںانگلیاںبرابر نہیںہوتیدنیامیںاچھے لوگ بھی ہیں اور برے لوگ بھی ہیں رانی جی:بلکل ٹھیک ہے ۔ راجاجی:چھوٹومیاںکچھاپنے دیس کے بارے بھی بتاﺅ ہمیں!! شیروجی:کیا بتائیںہم آپکو اپنے دیس کے بارے میں راجاجی :کچھ بھی شیرو:ہمارا ملک جس کا نام پاکستان ہے جسکی بنیاد پہلاکلمہ لاالہ اللہ محمدرسول اللہ پر ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے انگریزوں سے اپنے حقوق کی لڑائی جیتی ایسا دیس جس کا خواب حضرت اقبال نے دیکھا ۔ ہمارے ملک کا مقصد جیسا کہ میں نے کہا ۔ ایک اللہ کی عبادت اور آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا فروغ جہاں امن ہو شانتی ہو پیارہو فساد نا ہو دنگاناہو راجاجی:لیکن آجکل تو۔ شیرو:بات کاٹتے ہوئے) ہاںجی آجکل کے موجودہ دور میں ہم اپنے عقائدوافکار کو پس پشت ڈال چکے ہیں رانی جی!کچھ دین؟؟؟ زبان وغیرہ شیرو:رانی جی ہمارے ملک کے چار صوبے اور قومی زبان اردو ہے ہم مسلمان لیکن بنیادپرست اور فرقہ بازی میںایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں ہمارا ملک ویسے تو بہت اچھا ہے اس میں رہنے والے لوگ مہمان نواز بھی ہیں راجا: مہمان نوازی تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں باتیں کر رہیں تھے کہ کسی نے آواز دی شیرعلی شیر علی شیرو نے مڑکر دیکھا شیرو:ارے آجاﺅ کیا حال ہے یہ میرا دوست ہے احمد!!© اور یہ میرے چاچا چاچی احمد:شیرو میجک شو ہو رہا ہے دیکھنے چلیں؟؟ راجا:شیرومیاںمیجک شو؟؟ شیرو:مطلب یہ کہ جہاںجادو کے کمالات نظر کا دھوکہ ہے احمد:چلیں شیر علی چلو!! وہ اپنی جگہ سے اٹھے میجک شو شروع ہونیوالاتھا وہ حال میں بیٹھ گئے پروگرام شروع ہوا؛! ایک آدمی جس نے بڑی سی ٹوپی پہن رکھی تھی جادو دکھانا شروع کیا بچے اسکے کمالات پر تالیاں بجا رہے تھے شو ختم ہونے کو تھا جادو گر نے حاضرین سے پوچھا جادو گر خواتین و حضرات اور پیارے پیارے بچوں اگر آپ سے کوئی بچہ یا بڑا جس کو کوئی بھی کرتب آتا ہے اور دکھانا چاہتا ہے تو دکھا سکتا ہے اچانک شیرو نے راجا جی کے کا ن میں کچھ کہا اور وہ مسکرائے جادو گر اعلان کر رہا تھا شیرو اٹھا جادو گر کے پاس پہنچا شیرو:میں بھی جادو دکھانا چاہتا ہوں ؟؟ جادوگر(ایک نظر دیکھتے ہوئے ) اوکے بتاﺅکیادکھانا چاہتے ہو؟؟ شیرو نے آواز دی :رانی جی رانی جی ان کے پاس پہنچ گئی شیرو: خواتین و حضرات دل تھام کے بیٹھیں جادوگر سے ایک چادر مانگی ۔ چادر کو لہراتے ہوئے بولنے لگا دیکئھے یہ چادر ابھی میںرانی جی کے اوپر پھیلادوںگا رانی جی چادر میں سے غائب ہو جائیں گی رانی جی تیار ہیں شیرو نے اشارہ کیا رانی جی فرش پر بیٹھ گئیں۔ شیرو نے چادر ان کے اپر ڈال دی ! شیرو نے گنتی گننی شروع کی۔ شیرو:ون ٹو تھری ہاتھ سے چادر کی طرف اشارہ کیا چادر کھینچی تو رانی جی غائب تھی ۔ خوبصورت سانپ رانی جی کی جگہ موجود تھا ہال میں تالیوں اور چیخوں کی آواز بھری سانپ دیکھ کر بچے ڈر گئے۔ شور مچ گیا۔ سانپ سانپ !شیرو نے چادر دوبارہ چاچی جی کے اوپر پھیلا دی!گنتی گننے لگا۔ شیرو:ون ٹوتھری ہاتھ سے اشارہ کیا شیرو نے چاد ر کھینچی تو رانی جی مسکرا رہی تھیں ہال میں تالیوں کی آواز گونجی شیرو کے اس کرتب نے سب کو حیرت میں ڈال دیا خود جادوگر بھی پریشان ہوگیا سب چلے گئے !جادوگر نے آوازدی شیرعلی شیر علی:حکم کریںمیںخدمت کرسکتا ہوں جادوگر:بہت اچھے بہت اچھے یہ میرا کارڈ ہے ڈنگ ڈانگ جادوگر اور اگر تم میرے ساتھ کام کرنا چاہو شیرو:کارڈ واپس کرتے ہوئے۔ نہیں جی شکریہ یہ تو محض ایک تفریحی کھیل تھا۔ مستقل طور پر!! جادوگر: سوچ لو بہر حال یہ رکھ لو۔ شیرو :کارڈ لے کر جیب میں رکھ لیا۔اجازت جادوگر:لیکن بھولنا نا!! شیرو :آپ نے تو کمال ہی کر دیا مجھے تو یقین ہی نہین ہو رہا راجا :تم نے ہمیں ڈرامے باز سمجھ رکھا ہے شیرو : میں نے کب کہا؟ رانی: ہم نے تمہیں بتا دیا تھا شیرو: وہ ٹھیک ہے میں نے سوچا چلو آزما لیں ذرا رانی:پیار سے (ٹرائی کر لیں ذرا ) نقل اتارتی ہے) باتیں کرتے کرتے ہو ٹل کے سامنے پہنچ گئے شیرو : بھوک کے مارے برا حال ہے ، کچھ کھا لیا جائے راجا: جیسا دل کرے ، ہوٹل میں چلے گئے کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو شیرو نے کہا چائے پینے کو دل کر رہا ہے ؛ رانی : چائے کیا ہوتی ہے؟ شیرو ©: میرے خدایا چائے چائے ہوتی ہے پی کر دیکھں مزہ نہ آئے تو پیسے واپس©© راجا: ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں واپس کہا ں سے کریں گئے !! رانی : چھوٹو میاں آج کیلے اتنا ہی کافی ہے ۔ واپس چلتے ہیں ۔ وہ اٹھے اور گھر واپس چل دیے گھوم پھر کر تھکاوٹ ہو گئی۔ گھر آتے ہی شیرو نے راجا اور رانی جی کو آرام کا مشورہ دیا اور خود بھی آرام کرنے لگا اٹھو چاچاجی چاچی جی سورج نکل آیا ۔ دوپہر ہوگئی ۔ منہ ہاتھ دھو لو میں پیٹ پوجا کا بندوبست کرتا ہوں شیر علی : چند لمحوں بعد کمرے میں داخل ہوا ، ٹرے اٹھا رکھی تھی جس میں ناشتہ تھا ناشتہ سے فارغ ہوئے ناگ راجا سوچ میں ڈوب گیا شیرو:راجاجی کیا سوچ رہے ہیں ََ َ؟!!راجاجی: سوچنا کیا ہے بہت دیر ہو گئی ہے ہمیں واپس جانا چاہیئے۔ شیرو: راجا جی اتنی جلدی کیا ہے؟؟ راجاجی: ہونہہ سوچتے ہوئے شیرو: ٹی وی لگاتا ہے راجاجی شام کو فلم دیکھنے چلیں گے رانی جی : ٹھیک ہے رانی جی: چھوڑیں جی چلیں جائیں گے کوئی پریشانی تو ہے نہیں ! راجا جی : پریشانی پوچھ کر تھوڑا آتی ہے ! رانی جی: اللہ خیر کرے گا ایک دو دن رک جاتے ہیں !! شیرو : جی راجاجی راجا جی : ہتھیار ڈالتے ہوئے© : جیسے چاچی بھتیجے کی مرضی ۔ شیرو: خوش ہوکر چاچاجی زندہ آباد! چلیں باہر گھومنے چلتے ہیں !! راجا رانی نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تینوں باہر نکلنے لگے! شیرو انہیں شہر کہ معروف ترین جگہ لے آیا ہر طرف شور ہی شور تھا شیرو بتا رہا تھا شیرو:چاچا جی یہ فوڈ سٹریٹ ہے ۔ یہاں ملک بھر کے کھانے بنتے ہیں جہینں دور دراز سے آئے لوگ نوش فرماتے ہیں ۔ شیرو: کھانوں میں اس جگہ کا مقابلہ نہیں ایک جگہ سے برف کا گولہ لیا خودبھی کھانے لگا انہیں بھی کھلایا برف پر رنگ ڈال کر کھانا اچھا لگا رانی جی : چھوٹو میاں بڑی مزیدار چیز ہے شیرو: جی رانی جی وہ تینوں پھر پیدل چلنے لگے تھوڑا آگے پہنچے تو بھیڑ نظر آئی دیکھا تو معلوم ہوا کے سپیرا ہے سانپ کا تماشا دکھا رہا ہے بھیڑ میں شامل ہوگئے۔ سپیرا سانپ کے آگے بین بجا رہا تھا سپیرے نے بین بجا نا بند کی اور جھولی میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرنے لگا اچانک راجا رانی نے محسوس کیا کہ سانپ انکی طرف متوجہ ہو رہا تھا ۔ سانپ: ناگ راجا ناگن رانی کو انسانی دنیا میں خوش آمدید راجاجی: آپ راجاجی: بس رانی جی کا دل بہلانے کیلئے سانپ:راجا جی بچ کر رہنا انسانوں کی دنیا ہے قدم قدم پھونک کر رکھنا پڑتا ہے رانی جی : ٹائیگر ناگ آپ یہاں سانپ: جی رانی جی دراصل یہ سپیرا جو ہے غریب ، لیکن بہت نیک ہے اس نے کوئی نیکی کی تو بڑے ناگ جی نے خوش ہے ہو کر مجھے اس کے ساتھ بھیج دیا ۔ تاکہ یہ بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ ان کی چھوٹی چھوٹی معصوم خواہش پوری کر سکے بہر حال اسکا گزارا اچھا بھلا ہو جاتا ہے ناگ جی آپ کو یہاں دیکھ کر اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ بتا نہیں سکتے ۔ رانی جی: ہمیں بھی ابھی گفتگو جاری تھی کہ َ؟؟؟؟ نزدیک سے فائرنگ کی آواز آئی اور پھر شور سا مچ گیا افرا تفری مچ گئی سپیرا جلدی جلدی اپنا سامان سمینٹے لگا شیرو نے کہا راجا جی نکلو رانی جی نکلو اشارہ کیا فلم کا ٹائم ہو گیا شیرو نے کہا فلم دیکھ کے گھر واپس آئے تھکے ہوئے تھے شیرو نے دودھ گرم کیا دودھ پینے لگے باتیں شروع ہو گئیں رانی جی کعو جیسے کچھ یاد آیا رانی جی : چھوٹے میاں وہ آوازیں کیسی تھیں شیرو: فائرنگ ہوئی تھی ظالم ڈکیتی ڈال رہے تھے ۔ پولیس آ نے پر گو لیا ں چلاتے ہوئے فرار ہو گئے اور پولیس کچھ بھی نہ کر سکی اور منہ دیکھتی رہ گئی ؟؟ راجا جی : یہ بھی کوئی پولیس ہے ۔ پولیس ہے تو کوف قاف کی کہ جرم بعد میں ہوتا ہے لیکن مجرم پہلے ہی پکڑا جاتا ہے ۔ شیر علی : اور چور ہماری پولیس کو بتا کر جاتا ہے کہ آج ہم نے فلاں جگہ واردات کرنی ہے برائے مہربانی اس جگہ مت آئےے گا آپ کا حصہ تھانے پہنچ جائے گا راجا رانی ہنسنے لگے رانی: پھر تو عظیم پولیس ہے بڑی شیر علی: اڑا لیں مذاق کوئی بات نہیں رانی: اچھا یہ بتاﺅ کے شیرو: پوچھئے نا رانی جی: تم نئے ہمیں بتایا تھا کہ تمہارا ملک کو ئی خاص بات بتاﺅ شیر علی : ہمارا ملک قدرت کے حسین مناظر کا بھر پور شاہکار ہے رانی: تفصیل بیان کی جائے؟ شیرو: جی حکم رانی صاحبہ۔ صوبہ پنجب کی خاص بات وہ پانچ دریاﺅں کی سر زمین ہے راجا جی: مطلب شیرو: مطلب یہ کے جناب پانچ دریاﺅں کا مرکز ہے ۔ جس میں راوی، ستلج، جہلم، چناب، اور سندھ۔ رانی:یہ نام فریاﺅں کے شیرو: جی! آپ کو خاص بات بتاﺅں کے صوبہ سرحد کے مقام پر ایسی جگہ بھی ہے جہاںدو دریا اکٹھے بہہ رہے ہیں۔ دونوں کا رنگ الگ الگ طور سے نمایاںدیکھا جاسکتاہے راجاجی:عظیم شان ہے نالک کی۔ شیرو جی ہاں اس لئے تو ہم سب اللہ توکل ہی پل رہے ہیں رانی جی : کیا مطلب؟؟ شیرو: رانی جی ہمارا ملک اولیاءکرام یعنی (ولی اللہ) اولیاءکرام کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب اللہ کے ایسے بندے جہنوں نے اپنی شندگی سادگی سے اللہ کی رہ میں گزار دی اوراور راجاجی: انکے نام شیرو: بہت سے ہیں جن میں حضرت سخی شہباز قلندر، حضرت شاہ شمس تبریز ، حضرت بابا علی ہجویری ، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت بری امام سرکار شیرو:اور اور جانے کتنی ایسی ہستیاں ہیں جن کے مجھے نام نہیں آتے رانی جی : حیرت ہے!! شیرو: اللہ کے پیغمبروں اور نبیوں کے بعد یہ ہستیاں بھی رانی: شیرو جی مجھے بھوک لگی ہے !! شیرو : ایک طرف ٹٰبل پر سے ڈبہ اٹھایا اور اس میں سے دودھ اور بسکٹ کیک نکالے تینوں کھانے لگے وہ باتیں کر رہے تھے کمرے میں عجیب سی بو محسوس ہوئی ان کے سر چکرانے لگے وہ بے ہوش ہو گے کچھ دیر بعد کسی کے بولنے کی آواز آئی بے ہوش ہوگئے ہوں گے اٹھاوا کر ڈیر ے پربھیجوادو اچھی طرح سے باندھ دینا باقی باتیں وہی ہوںگی دوسری آواز سنائی دی ، یس ماسٹر ، پھر انہیںکسی نے اٹھایا جانے کب ہوش آیا۔ ان کے ہاتھ پاﺅں بندھے ہوئے تھے کمرے میں تینوں کے علاوہ کوئی نا تھا اچانک دروازہ کھلا جادوگر اندر داخل ہوا تینوں پر نظرڈالی اور بولا جادوگر: دیکھو میری کوئی دشمنی نہیں ہے شیرو: پھر اس طرح کیوںلائے!! جادوگر: ضروری تھا ©©©©©؟؟ راجا: کیا ضروری تھا ©©؟؟ جادوگر :میںتو اتنا چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ کام کرو تاکے رانی : رک کیوں گئے ؟؟جادوگر: تمہارا تب ہوگا لیکن مشہوری میری ہوگی اور پھر پھر شیرو : پھر کیا۔ جادوگر: پھر یہ کہ میرے پاس دولت ہی دولت شیرو: دیکھو لالچ بری بلاہے !!تمہیں نہیں پتہ ؟؟ جادوگر: مجھے اتنا پتہ ہے کہ تم میرے ساتھ کام کرو گے بس یہ میرا آخری فیصلہ ہے شیرو : اگر میں تمہارے ساتھ کام نہ کرو جادوگر: غصےمیں آگیا اس نے شیرو کے منہ پر تھپڑ مارا جادوگرنے جیسے ہی تھپڑشیرو کو مارا رانی نے راجا کی طرف دیکھا ۔ اس سے پہلے کوئی کچھ سمجھتا رانی : ناگن کے روپ میں اچھلی اور جادوگر کو ڈنگ مارا جادوگر نیچے گر گیا رانی شیرو کو کھولنے لگی شیرو نے دونوں کو ایک نظر دیکھ ۔ راجا: نکلو جلدی یہاں سے شیرو کے گھر پہنچ گئے !! شیرو: شکر ہے میرے مالک تو نے بچا لیا اس منحوس جادوگر سے شکریہ رانی جی شکریہ آپ کا احسان ساری زندگی نہیں بھلا سکوں گا ۔ رانی: معاف کرنا شیرو ہمای وجہ سے آپ کو تکلیف پہنچی راجا: اب ہمارا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے رانی : ہاں ہمیںچلنا ہوگا واپس اپنے دیس میں شیرو کی آنکھوں میںآنسو آگئے شیرو: نہیںرانی جی راجا جی ہمیں چھوڑ کر مت جائیں ۔ راجا: جانا تو ہے ہم نے اس سے پہلے مزید کوئی پریشانی ہو۔ ہمیں اجازت دو رب راکھا !! رانی جی: شیرو میاں دل چھوٹا نا کرو ہم آپ سے آتے رہا کرینگے شیرو : خدا حافظ رانی:ماللہ تمہارا حامی و ناصر !!!الوداع الوداعراجا: رانی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا دور کہیں سے بین کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔ چند لمحوں بعد راجا رانی ناگ ناگن کے روپ میں انہوں نے شیرو نے دیکھا ۔ جیسے کہہ رہے ہوں جیتے رہو خوش رہو۔ سدا سکھی رہو سیرو: خدا حافظ شیرو:ا نہیں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا بولنے لگا اور؟؟؟؟ چاچی جی چاچاجی میں انتظار کروں گا ہاں چاچا جی دھاڑیں مار کر رونے لگے!

اپنا تبصرہ بھیجیں