اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے

میدان سیاست میں پل بھر میں کیا کچھ ہو جائے نا کسی کو کچھ خبر ہوتی ہے اور نا ہی اس بات کا پتہ لگنے دیا جاتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور اگر دیکھا جائے تو میدان سیاست میں عجب کھچڑی سی پکی ہی لمحہ با لمحہ عجیب و غریب بھی اور دلچسپُخبریں سننے کو ملتی ہیں اور اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستانی عوام کی دلچسپی کا سبب ہے وہ صدر مملکت جناب عارف علوی صاحب اور محترم الیکشن کمیشنر صاحب کی نوک جھونک جی پیارے دوستوں جناب صدر نے انتخابات کے معاملے میں الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کیں اور چیف الیکشن کمیشن سے ملاقات کا عندیہ بھی دیا لیکن جناب الیکشن کمشنر کی طرف سے جناب صدر سے ملاقات کرنے کے لئے صاف انکار کر دیا گیا جبکہ سابق سیکرٹری جناب کنور دلشاد کا بھی یہہی کہنا ہے اس معاملے میں کہ قانونی طور سے جناب صدر الیکشن کمیشن کو الیکشن کروانے کی تاریخ نہیں دے سکتے اور جناب صدر تو ایک دفعہ پہلے بھی انتخابات کی تاریخ مقرر کر چکے لیکن جناب صدر کی طرف سے مقرر کی گئ تاریخ پہ انتخابات نہیں ہوئے اور یقینا انتخابات تو ہونے ہی ہیں لیکن کب یہ پتہ نہیں تاہم خبر یہ بھی ہے کہ جناب صدر کی طرف سے مشورہ ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی قائدین کو مدعو کر لیا تاکہُ انتخابات کروانے کے لئے مشاورت کی جائے اور انتخابات کروانے کے لئے یقینا سب کا ایک میز پہ بیٹھنا ضروری ہے کیونکہ جب تک سب ملکی مفاد میں متحد ہو کے ایک میز پہ نہیں بیٹھینگے تب تک انتخابات کی تاریخ مقرر نہیں کی جا سکتی اور ہمارے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ ہاتھی کے دانت اور دکھانے کے اور جی وہ شائد اس لیے کہ آج سے پہلے بھی ہزار ہا بار الیکشن ہو چکے لیکن الیکشن کی تاریخ میں کبھی بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کروانے کے لئے تاریخ مانگی گئی ہو کہ سب مل کے الیکشن کی تاریخ رکھیں البتہ نگران وزیراعظم کے نام پہ مشاورت ہوتی ہے اور متفقہ رائے سے ہی نگران وزیراعظم کا نام دیا جاتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے موجودہ نگران وزیراعظم جناب انوار الحق کاکڑ صاحب کا نام تجویز کیا گیا اور یقین نگران حکومت کا کام ہے کہ وہ انتخابات کروائے اور الیکشن کمیشن کی معاونت کرے یقینا الیکشن کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا کام ہے نا کہ سیاسی جماعتوں ککا یقینا یہ عوام کو بہلانے کے لئے یعنی کہ جی کے بہلانے کو خیال اچھا ہے جی دوستوں نئے انتخابات کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے تیاریاں تو شروع ہیں لیکن الیکشن کن ہوں یہ بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا جی شائد وہ اس لئے کہ ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی طرف سے ا اس بات کا اعلان کر دیا گیا کہ وہ پاکستان نہیں آ رہے اور پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ جناب میں نواز شریف کے ذرائع کی طرف سے اور خود میاں نواز شریف کی طرف سے بھی کہا جا رہا تھا کہ وہ یعنی میاں نواز شریف جلد وطن ہونگے شائد انھیں یقین تھا کہ الیکشن ہونے والے ہیں لیکن اب شائد انھیں یقین ہو گیا کہ الیکشن فی الحال اپنی تاریخ پہ ہوتے نظر نہیں آ رہے اس لئے جناب میاں نواز شریف صاحب نے وطن واپسی کا ارادہ موخر کر دیا ہو لیکن بہر حال جناب نواز شریف کی طرف سے جلدی وطن واپس نا آنے کی خبر سے لیگی کارکنوں میں اداسی سی چھا گئی اور ان امیدواروں کی امیدوں پہ بھی پانی پھیر دیا کہ جو انتخابات ہونے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں اور ہم آجکل شہر اقتدار میں موجود ہیں اور شہر اقتدار میں ایک خبر زیر گردش ہے وہ یہ کہ نگران حکومت کو دو سال کا ٹائم دیا گیا ہے یعنی کہ وفاقی دارالحکومت میں افواہ پھیلی ہے کہ موجودہ نگران حکومت جو ہے انکو کہا جا رہا ہے کہ دو سال تک معاملات دیکھنے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ نگران حکومت کے قیام سے قبل ہی قوانین میں تبدیلی کی گئی اور ہمارے بہت سے دوستوں کا کہنا ہے کہ نگران کابینہ کا انتخاب جو ہوا یوں لگ رہا ہے کہ شہر اقتدار میں ہیرے روشن ہو گئے ہوں یعنی کہ ہر وزیر و مشیر اپنے اپنے شعبے میں ماہر و سیاسی و سماجی حلقوں میں بھی معروف و مقبول ہیں اور اگر یہ بات سمجھ لی جائے کہ دو سال تک الیکشن نہیں ہونے تو پھر شائد میاں نواز شریف بھی شائد دو سال تک وطن واپس نا آئیں اور اگر جلدی ہو گئے تو شائد میاں صاحب کی واپسی ہو یعنی میاں صاحب کی واپسی بھی انتخابات سے مشروط ہے بہر حال بات ہو رہی تھی جناب صدر کی اور جناب الیکشن کمیشن کی تو دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے اور دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی قائدین کو مدعو کیا ہے تو دیکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی قائدین کی مشاورت سے الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے کہ نہیں اور دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ جناب کپتان جو آجکل سرکاری مہمان ہیں انھیں بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے مدعو کیا گیا تو بہت سے دوست یہ بھی کہہ رہیے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی ٹیم سرکاری مہمان خانے میں جائیگی یا پھر جناب کپتان کو پیرول پہ رہا کر کے جناب الیکشن کمیشن کے روبرو پیش کیا جائیگا کہ وہ الیکشن کے معاملے پہ مشاورت فراہم کر سکیں اور اگر دیکھا جائے تو جو صورتحال نظر آتی ہے لگ رہا ہے جناب کپتان کو ریلیف مل جائیگا انکی سزا معطل ہو جائیگی اور یہ بھی ہمارے بہت سے دوستوں کی رائے ہے تو بہر حال میدان سیاست ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے دن میں رات اور رات میں دن بھی ہو سکتا ہے تو بہر حال دیکھتے ہیں میدان سیاست میں آئندہ کیا ہو گا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ بات بھی وقت ہی بتا سکتا ہے تو بہر حال فی ال وقت ہمیں دیں اجازت دوستوں ملتے ہیں جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا

اپنا تبصرہ بھیجیں